۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
علمائے شیعہ پاکستان

حوزہ/ شیعہ علماء پاکستان کا معاشرے میں شدت پسندی، مذہبی منافرت اور عدم برداشت کو پروان چڑھانے والے متنازعہ یکساں نصاب تعلیم کو مسترد کرنے کا اعلان۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلام آباد/ یکساں نصاب کے متنازع نکات کے خلاف مختلف شیعہ جماعتوں کے رہنماؤں،اکابرین اور سکالرز کی اہم پریس کانفرنس کا انعقاد مجلس وحدت مسلمین مرکزی سیکرٹریٹ میں ہوا۔جس سے خطاب کرتے ہوئے شیعہ رہنماؤں نے یکساں نصاب کو مذہبی ہم آہنگی کے خلاف ان عناصر کی سازش قرار دیا جو مذہب کی آڑ میں فرقہ واریت پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

مقررین نے کہا کہ وطن عزیز پاکستان لا الٰہ الاللہ کے نام پر معرض وجود میں آیا جس کے حصول کے لیے سنی و شیعہ مسلمانوں نے مل کر قربانیاں دیں ۔ وطن عزیز کا قیام کسی مسلک اور فرقے کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ شیعہ سنی مسلمانوں نے متحد ہوکر پاکستان کو حاصل کیا اور ملک دشمن طاقتوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود الحمد للہ آج بھی ہمارے درمیان اسلامی اخوت اور بھائی چارہ موجود ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے پاکستان میں اسلامی رواداری، اخوت اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے کے لیے قوم کے اکابرین نے کاوشیں کیں اورقرآن و سنت کی روشنی میں ایک ایسا آئین بنایا گیا جس میں ان تمام پہلووں کا خیال رکھا گیا جو ایک نظریاتی ریاست کو اسلامی سرزمین بنانے کے لیے ضروری تھا۔

کسی ملک میں قوم کی تشکیل کے مراحل اور اس کے رشد و تکامل کے لیے اس قوم کا تعلیمی نصاب و ہ سانچہ ہے جس میں اس کی نسلیں تیار ہوتی ہیں۔ اس تعلیمی نصاب کوجہاں تکنیکی و علمی اعتبار سے دورحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے وہاں آئین میں بیان کی گئیں اسلامی اخوت اور دینی رواداری کے زریں اصولوں پر مبنی اسلامی تصور حیات کا آئینہ دار بھی ہونا چاہیے۔ پاکستان بننے کے بعد ہم نے انگریزوں سے چھٹکارا تو حاصل کیا لیکن بدقسمتی سے ان کے بنائے ہوئے طبقاتی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ تعلیم کے میدان پر یہ فرسودہ نظام بے حد اثر انداز رہا۔ نتیجتاًغریب، امیر،مدرسوں ،سرکاری و نجی سکولوں سب نے الگ الگ نظام تعلیم متعارف کرایا اور اس کے نتیجے میں سوچ و افکار کے فرق کی بلند دیواروں کے ساتھ معاشرہ استعداد اور تفکر کے کئی درجوں میں بٹنا شروع ہو گیا۔ یہ تقسیم اور معاشرتی ناہمواری اس بات کی متقاضی رہی کہ ان دوریوں کو ختم کیا جائے اور اس راہ کو ہموار کرکے قوم کی تشکیل کے لوازمات فراہم کیے جائیں۔

یکساں قومی نصاب اس حوالے سے اہم اور دیرینہ ہدف کو انجام دینے کے ارادے کے ساتھ شروع کیا گیا جو بظاہر ان نقائص کو دور کرنے اور پبلک، پرائیوٹ اور مدرسہ تعلیم کے درمیان موجود خلاء کو کم کرنے پر منتج ہونا تھا لیکن یہ کام بھی سازشوں کے نتیجے میں اپنی اصل منزل سے کوسوں دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔یہ یکساں قومی نصاب اپنے پہلے بیان کردہ ہدف کو حاصل کرنے کی بجائے اپنے اصل آئینی اور نظریاتی ہدف جیسے مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کے اعلیٰ اہداف کو بھی محو کرتا دکھائی دے رہا ہے۔اس نصاب کی تدوین میں بالخصوص اسلامیات، اردو اور معاشرتی علوم میں بعض ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو عقیدتی، فقہی اور تاریخی اعتبار سےدین اسلام کے مسلمہ اصولوں سے متصادم اور آئین پاکستان میں مذکور شہری حقوق اوراہل تشیع کی مذہبی آزادی سے متصادم ہیں۔ اس لئے یہ مکتب تشیع کے نزدیک ناقابل قبول نصاب ہے۔

آج کی پریس کانفرنس کا مقصد اس بے چینی اور شدید اضطراب کے اہم نکات کو آپ کے سامنے لانا ہے تاکہ حکام بالا ان کے فوری حل کے لئےاقدام کریں ۔حالانکہ اس سے قبل بھی وزیر اعظم ، وزیر تعلیم اور ڈائریکٹریکسا ں نصاب تعلیم کو اس سلسلے میں خطوط لکھے گئے، مگر وزارت تعلیم اور نصاب کمیٹی کی جانب سےاس مسئلے کی اہمیت اورحساسیت کو نظر انداز کیا گیا۔ قومی اسمبلی کی ایک قرارداد مورخہ 21اگست2020 کو بنیاد بنا کر وزارت مذہبی امور نے عجلت میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا اور صدیوں سے امت مسلمہ میں رائج درود پاک کو بدلنے کی کوشش کی۔ اسی نوٹیفکیشن کی رو سے صدیوں سے رائج درود ابراہیمی کواسی یکساں قومی نصاب کے لیے دفتری و غیر دفتری تحریروں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس نوٹیفکیشن کو فورا منسوخ کیا جائے اور تمام مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ مسنون درود کو دفتری و غیر دفتری طباعت پر لاگو کیا جائے۔ یہ درود ابراہیمی دنیا کے تمام مسلمانوں اور تمام مکاتب فکر کے درمیان متفق علیہ درود ہے ۔اس متفق علیہ درود شریف کی جگہ ایک ایسی عبارت کو درود ابراہیمی کی جگہ پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے جو خود اہل سنت کے ہاں بھی ثابت نہیں، اہل سنت کی کسی معتبر کتاب میں یہ درود موجود نہیں تو ایسی بدعت کو آپ کس طرح شیعہ مسلمانوں پر لازم قرار دیں گے، جو خود آپ کے ہاں ثابت نہیں۔لہذا درود ابراہیمی کو ہی شامل نصاب رکھا جائے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق رائے موجود ہے اور گزشتہ نصاب میں بھی وہی درود شامل نصاب رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دینی اکابرین کی ہم آہنگی کے بغیر ایسی بڑی تبدیلی عجلت کی قانون سازی پر سوالیہ نشان ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ آئندہ ایسی کسی بھی قانون سازی سے اجتناب کرے جو قرآن و سنت سے متصادم ہے اور جو دینی احکام میں دخالت پر مبنی ہو۔تمام ایسے موارد جن پر مسلمانوں کے فرقوں میں اختلاف رائے موجود ہے ، نصاب میں ان اختلافی موارد کو اچھالنا ملی یکجہتی کے منافی ہو گا۔ ایسے موضوعات پر مسلمانوں کی متفقہ رائے کو ہی شامل نصاب کیا جائے۔ مثلا درود کی تبدیلی ، اہل بیت رسول ﷺ کے مخالفین ، جنہوں نے خلیفہ راشد حضرت امیرالمومنین امام علی ؑ سے جنگ کی ان کے خلاف تلوار اٹھائی ان کو ہیرو بنا کر پیش کرنا کہاں کی اسلامیات ہے؟ لہذا وہی شخصیات یکساں قومی نصاب میں شامل کی جائیں جو مسلمانوں کے درمیان یکساں طور پر قابل احترام ہیں کم از کم متنازعہ شخصیات کونصاب میں شامل کرنے سے احتراز کیا جائے۔ ایسے تصورات جو تمام فرقوں کا مشترکہ اثاثہ نہیں ہیں انہیں قومی نصاب کا حصہ بنانے کی بجائے حضرت حمزہ سیدالشہداؓ ، حضرت مصعب بن عمیرؓ ، عاشق رسول ﷺ حضرت اویس قرنیؓ، حضرت عمار یاسرؓ، حضرت مقداد ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام ؓ کو شامل نصاب کیا جائے، جن کی عظمت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔

مقررین نے کہا کہ زکوۃ کی اہمیت و فضیلت کے موضوع پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے مگر بعض جزئی احکام اور فقہی مسائل میں مسلمان فقہی مکاتب میں اختلاف نظر موجود ہے۔ ایسے اختلافی موارد میں شیعہ طلبہ پر دوسرے مسلک کی تعلیمات مسلط کرنے کی بجائے اس کی تفصیل کا حصول طلباء کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔صوفیا ء و اولیاء اور فاتحین کے باب میں شیعہ مکتبہ فکر کو مکمل نظر انداز کرانا متعصبانہ طرز عمل ہے۔اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اہل تشیع میں ایسےسینکڑوں عالم ،محدث، مفسر، مورخ، فلاسفر ، عارف، فقیہ گذرے ہیں جنہوں نے دین اسلام اور امت مسلمہ کے لئے قابل قدر اور قابل فخر خدمات انجام دیں۔ جن کو نظر انداز کرنا افسوس ناک ہے۔ نصاب تعلیم میں خاندان بنو امیہ و بنو عباس اور فاتحین کا تذکرہ تو شامل کیا گیا ہے مگر خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے آئمہ اہل البیت علیہم السلام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

نصاب میں خاندان رسالت ﷺو آئمہ اہل بیت کا تعارف، تعلیمات اور سیرت و کردار کو نصاب میں مثالی نمونہ بنا کر پیش نہیں کیا گیا۔جس سے نئی نسل، اسلام کے ایک بڑے ذخیرہ سے محروم ہو جائے گی۔نصاب میں مزید بہتری کے لیے ضروری ہے کہ دعا کے موضوع پر حاصلات ِ تعلم میں ’’دعائوں کی کتب، مثلاصحیفہ سجادیہ، دعائے کمیل وغیرہ کا تعارف‘‘ بھی شامل کیا جائے بچوں کی طبعی عمر، ذہنی سطح اور دلچسپی کی پیش نظر، اہل بیت کی تعلیم کردہ ’’والدین کے حق میں بچوں کی دعا‘‘کا تعارف اور ’’اولاد کے حق میں والدین کی دعا‘‘ کا تعارف بھی اس موضوع میں شامل کیا جائے۔

’’مسلمانوں کی عظمت کی بحالی کا شعور اُجاگر ہو سکے‘‘ جیسے اہم مقصدِ تدریس کو مسلمانوں کے مشترکہ اور متفقہ عقیدہ ِ امام مہدی اور ان کے ہاتھوں عالمی اسلامی حکومت کے نفاذ کے تصور سے کاٹ کر پیش کیا گیاہے۔ جو مطلوبہ مقصد سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس مقصدِ تدریس کی خاطر، حضرت امام مہدی اور ان کے ساتھ حضرت عیسیٰ کی تشریف آوری کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ کیونکہ امام مہدی پر عقیدہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے.اسی طرح اسلام میں علم( دینی و سائنسی علوم) کے موضوع کے حاصلات ِ تعلم میں امام جعفر صادق کے سائنسی انکشافات اور ان کے شاگردوں کی سائنسی خدمات سے واقفیت کو شامل کیا جائے۔

حضرت امام حسینؑ کے موضوع پر بھی سانحہ کربلا کے عوامل، واقعات اور اثرات سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس موضوع کے حاصلات ِ تعلم میں ان کو شامل کی جائے۔ اتحاد ملی کے موضوع کے حاصلات تعلم میں ’’مسلمان‘‘ کی تعریف،مسلمانوں کے مشترکات سے آگاہی اور کسی مسلمان کو کافر کہنے یا تفرقہ و نفرت پیدا کرنے کی مذمت شامل کی جائیں۔

مقررین نے مطالبہ کیا کہ نصاب میں خلافت کے ساتھ ملت تشیع کے عقیدے کے مطابق امامت بھی پڑھائی جائے۔ نیز صحاح ستہ کے ساتھ ساتھ شیعہ کتب اربعہ (حدیث)کا تعارف بھی کروایا جائے۔ خلفاء کا شامل ہونا لیکن آئمہ اثنا عشر کا بطور امام شامل نہ کیا جانا اس نصاب کو یکساں نہیں رہنے دیتا بلکہ یہ ایک مسلک کا نصاب بن جاتا ہے۔ عبادات کے باب میں بھی تراویح جیسی غیر متفقہ عبادات شامل ہیں جبکہ اس مرحلے پر بھی شیعہ کی امتیازی عبادات کا ذکر نہیں ہے۔ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر باقی ہے کہ جب یہ عقیدے اور ایمان کی کتاب ہے تو اس میں شیعہ بچوں کے عقیدے اور ایمان کے مطابق کیا چیز شامل کی گئی ہے؟ نصاب میں آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی جو شخصیات شامل کی گئی ہیں وہ بھی اہل سنت کے عقیدے کے مطابق شامل کی گئی ہیں۔نصاب میں اہل بیت ِ اطہار کے اسمائِ مبارکہ کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ لکھنے سے احتراز کیا گیا ہے۔

صحیح بخاری جیسی مستند کتب کے مطابق اہل بیت ِ اطہار کے اسمائِ مبارکہ کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘لکھا جائے اور محبان اہل بیت کی دل آزاری سے اجتناب کیا جائے۔ پاکستان میں بسنے والے سات کروڑ شیعہ اپنے عقائد اور دینی تعلیمات کو شدید خطرے میں دیکھ رہے ہیں۔لہذا اپنےعقیدے کی حفاظت ہمارا آئینی حق ہے۔ پاکستان کے آئین کی شق نمبر 22 میں واضح طور پر لکھا ہے۔ "کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا "آئین پاکستان ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم دینیات سمیت تمام تر نصاب دین اسلام اور فقہ جعفریہ کی روشنی میں حاصل کریں لہذا نصاب مرتب کرتے وقت ہمارے مسلمہ عقائد اور تعلیمات کو مدنظر رکھاجائے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب نصاب تحریر اور نظر ثانی کی تمام کمیٹیوں میں ہمارے علماء اور دانشور شامل ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ اس قابل اعتراض نصاب کے نتیجے میں معاشرے میں مزید شدت پسندی، مذہبی منافرت اور عدم برداشت کو پنپنے کا موقع ملے گا۔ یکساں قومی نصاب میں مشترکات کو شامل کرتے ہوئے تمام مسلمہ مکاتب فکر کے تعارف کو شامل کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل تمام مکاتب فکر کے بارے میں درست معلومات اور تفہیم پیدا کرسکیں۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ یکساں قومی نصاب اپنی موجودہ حالت میں ہمارے لیے قابل قبول نہیں اور ملک کو مزید انتشار اور تفریق کی جانب دھکیلنے کا باعث بنے گا۔ قومی اتفاق رائے کے بغیر اس یکساں قومی نصاب پر عمل درآمد مناسب عمل نہیں ہوگا۔ ملت جعفریہ یہ سمجھتی ہے کہ یکساں نصاب کو حقیقی معنوں میں مشترک ہونا چاہیے۔ اسے کسی ایک فرقے کا نصاب نہیں ہونا چاہیے۔ اگر مشترکہ دینیات کے نام پر مسلکی دینیات نافذ ہوگئی جیسا کہ موجودہ دینیات کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے، تو اس سے مذہبی منافرت پھیلے گی ہم مشترکہ دینیات کے سلسلے میں حکومت سے مکمل تعاون کریں گے۔

یکساں قومی نصاب کے سلسلے میں اہل تشیع کے اعتراضات سننے کے لئے چند روز قبل متعلقہ حکام نے ایک نشست منعقد کی ہے جس میں ان اعتراضات کو دور کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے ہم اس نشست کا خیر مقدم کرتے ہوئے پر امید ہیں کہ فوری طور پر اس سلسلے میں اقدامات کئے جائیں کیونکہ پہلے ہی اس سلسلے میں بہت دیر ہوچکی ہے، اس میں مزید تاخیر کسی صورت مناسب نہیں ہوگی۔ نصاب پر نظر ثانی کا عمل فوری مکمل کیا جائے۔ ہم مشترکہ اسلامیات کے حق میں ہیں لیکن اگر قرآن کریم اور سنت رسول اللہ ﷺ کی مسلمہ اسلامی تعلیمات کی بجائے ایک مسلک کی تعلیمات یا متنازعہ تعلیمات پر اصرار کیا گیا تو پھر شیعہ بچوں کے لئے ہم علیحدہ اسلامیات کا مطالبہ کریں گے۔یعنی ایسی دینیات شائع ہو جس کے نصاب سے لیکر کتاب بنانے تک شیعہ ماہرین تعلیم اور علماء شامل ہوں اور سکولوں میں شیعہ طلبہ کو دینیات پڑھانے کے لیے بھی شیعہ اساتذہ بھرتی کئے جائیں اور اسی کے مطابق امتحانی نظام ترتیب دیا جائے۔ جیسا کہ بھٹو دور میں حکومت نے منظوری دی اور علیحدہ شیعہ دینیات نافذ رہی۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی دینیات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے ایک حصہ شیعہ سنی کے درمیان مشترک اور دو حصے شیعہ سنی بچوں کے لیے علیحدہ ترتیب دئیے جائیں۔ یہ تینوں حصے ایک ہی کتاب میں شائع ہوں، ہر حصے کو بنانے والے ماہرین تعلیم اور علماء مختلف ہوں اور امتحانی نظام بھی اسی کے مطابق ترتیب دیا جائے۔ جیسا کہ 1975 کی اسلامیات کے ذریعے ملک میں نافذ رہا۔ تو کم از کم یہ دینیات ایسی ہو جسے شیعہ بچے اطمینان سے پڑھ اور اپنے امتیازی عقائد و نظریات پر فخر کرسکیں وگرنہ نوجوان نسل کو عقیدے و ایمان کے لحاظ سے ایک ایسا احساس کمتری دامن گیر ہوجائے گا کہ وہ پھر کبھی ایک باوقار دیندار شخصیت نہیں بن سکیں گے۔

پریس کانفرنس کے شرکاء میں علامہ مقصود علی ڈومکی مرکزی ترجمان ایم ڈبلیوایم پاکستان ، علامہ محمد حسنین گردیزی رکن شوری عالی ایم ڈبلیوایم پاکستان ، علامہ افتخار الدین مرزا امام جمعہ مورگاہ راولپنڈی، علامہ علی اکبر کاظمی امام جماعت ڈھوک رتہ راولپنڈی ، علامہ سید یاسر شاہ امام جمعہ وجماعت خیابان سرسید راولپنڈی، علامہ سید سجاد نقوی، امام جمعہ بری امام ، علامہ سید مھدی شیرازی پرنسپل جامعہ القائم ٹیکسلا ، علامہ سید سبطین حسینی پرنسپل اداہ ایتام ڈی 17 اسلام آباد ، امتیاز حسین رضوی پرنسپل ایمز کالج ، برادر فداحسین امامیہ ڈیزاسٹر سیل برادر غلام اصغر عابدی انجمن دعائے زہراؑ، مولانا ظہیر کربلائی، مولانا علی شیر انصاری اور برادر خاور انجمن اثنا عشری اسلام آباد کے علاوہ دیگر شخصیات بھی شامل تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .